قائد اعظم اور نواب جعفر خان جمالی
قائد آعظم اور جمالی قبیلے کے سردار اور اکابرین ٫ تحریک پاکستان کے دوران |
قائداعظم 1938 میں جب مسلم لیگ کی تنظیم نو کے سلسلے میں
میں تمام برصغیر کا دورہ کر رہے تھے اس دوران وہ جیکب آباد بھی تشریف لے گئے سندھ کے مشہور دانشور پیر علی محمد راشدی اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہمارا قافلہ جب جیکب آباد ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس وقت کے سندھ کے وزیر آعلیٰ اللہ بخش سومرو کے خوف سے اور کانگریس کے رہنماوں کی حکمت عملی کی وجہ سے ریلوے اسٹیشن پر کوئی بھی نہیں آیا اس وفد میں موجود حاجی عبداللہ ہارون بہت حیران اور ششد تھے اس وقت انہوں نے پیر علی محمد راشدی سے مشورہ کیا پیر علی محمد راشدی اس وقت مقامی رہنما حکیم قائدالدین کے گھر کی طرف گئے اس وقت جیکب آباد کے کئی سردار ،اللہ بخش سومرو کے خوف کی وجہ سے اپنے اپنے گھروں اور اوطاقوں کو تالا لگا کر جیکب آباد سے باہر چلے گئے تھے ۔حکیم قائم الدین نے میر جعفر خان جما لی کو اطلاع دی کے قائد اعظم ریلوے اسٹیشن پر آئے ہوئے ہیں اور کوئی استقبال کرنے والا نہیں ہے اور ویٹنگ روم بھی بند پڑا ہے یہ بات سنتے ہی میر جعفر خان جمالی جیکب آباد کے اسٹیشن کی جانب روانہ ہوگئے اور انہوں نے اپنے لوگوں کو ہدایت کی کہ وہ بڑی تعداد میں ایک جلوس کی شکل میں اسٹیشن پہنچیں اور ایک بڑے جلسے کی تیاری کریں ۔میر جعفر خان جمالی اسٹیشن پہنچے اور انہوں نے قائد اعظم کو خوش آمدید کہا اور اس کے بعدعید گاہ کے مقام پر عالی شان جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسے میں میر جعفر خان جمالی نے اعلان کیا کہ بلوچ جب کسی کہ ساتھ دوستی کرتے ہیں تو ہر قیمت پر اسے نبھاتے ہیں لہٰذا آج میرے علاقے میں قائد اعظم تشریف لارہے ہیں تو گولیوں کی بوچھاڑ میں ان کا استقبال ہوگا۔تو اس موقعے پر میر جعفر خان جمالی نے مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا اس بات پر وہ تمام عمر قائم رہے۔ قیام پاکستان کے وقت جب بلوچستان کا پاکستان میں شمولیت کا سوال اٹھایا گیا اور کہا گیا کہ بلوچستان کا فیصلہ بلوچستان کے عوام کے نمائندوں کے ذریعے کیا جائے گا اس سلسلے می برطانوی بلوچستان کے تمام قبیلوں جن میں بگٹی مری کا کڑ مینگل ، اور دیگر قبائیل کے سردار شامل تھے سے ان کی رائے لینے کے لیئے کوئٹہ میں شاہی جرگے کا اجلاس بلوایا گیا تو اس موقع پر یہ نواب جعفر خان جمالی اور نواب محمد خان جوگیزئی ہی تھے جنہوں نے اپنی جدوجہد اور فراست کے ذریعے کانگریسی عناصر کا منہ توڑ جواب دیا اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ بلوچستان وہ صوبہ ہے جس کے عوام نے سب سے پہلے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیابلوچستان میں میر جعفر خان جمالی نے مسلم لیگ کے قیام کے سلسلے میں اہم ترین کردار ادا کیامیر جعفر خان جمالی نے1938 میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شرکت کی اس وقت بلوچستان میں مسلم لیگ کے قیام کی ذمے داری قائد اعظم نے قاضی محمد عیسیٰ پر ڈالی، بلوچستان کے موجودہ چیف جسٹس قاضی محمد عیسی ہی کے صاحبزادے ہیں قاضی محمد عیسیٰ کے ہمراہ میر جعفر خان جمالی بھی تھے جو اس وقت بلوچستان مسلم لیگ میں نائب صدر تھے اس دوران بلوچستان میں کانگریس کے رہنماوں نے کوشش کی کہ کسی طرح بلوچستان میں کانگریس کو مضبوط کریں اور مسلم لیگ کی جڑیں کھوکھلی کریں ۔مگر میر جعفر خان جمالی نے کانگریس اور انگریزوں کی اس سازش کو ناکام بنایا اور بلوچستان میں ایک طرف مسلم لیگ کو مقبول بنایا دوسری جانب تحریک پاکستان کو کامیاب بنایا اس کے ساتھ ہی ساتھ بلوچستان کے پسماندہ اور دبے ہوئے عوام کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی اس مقصد کے لئے انہوں نے بلوچ قبائل میں تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کی یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے اور یہاں کے بعض عناصر اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے جدید تعلیم کو ناپسند کرتے ہیں اس لئے بلوچستان کے بعض علاقوں میں میر جعفر خان جمالی کی اس کوشش کی مزاحمت بھی کی گئی مگر میر جعفر خان جمالی نے اپنی اس کوشش کو ترک نہیں کیا انہوں نے اپنے خاندان اور قبیلے میں بھرپور انداز میں جدید تعلیم کو عام کیا انہوں نے اپنے خاندان کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے لاہور کوئٹہ، کراچی، ڈیرہ دون اور لندن بھیجا ان کی اس کوشش کے اثرات اس طرح سے برآمد ہوئے کہ جمالی قبیلے کے اکثر افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور پاکستان میں بہت سے اہم ترین شعبوں میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔
نواب جعفر خان جمالی اپنے چھوٹے بھائی حاجی شاہنواز خان جمالی (جن کے بیٹے پاکستان کے وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی ہیں) سے بہت محبت کرتے تھے میر جعفر خان جمالی جب بھی کراچی آتے تو اپنے چھوٹے بھائی میر شاہنواز خان جمالی کے گھر 18B سندھی مسلم ہاوسنگ سوسائیٹی میں ضرور قیام کرتے تھے ۔اس وقت میر شاہنواز خان جمالی کا گھر پاکستان کے تمام اہم ترین اور بڑے سیاستدانوں کا مرکز بن جاتا تھا۔ ان سیاستدانوں میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی، سابق وزیر اعظم زوالفقار علی بھٹو نوابزادہ نصراللہ خان ،ایم ایم اصفہانی ،نواب آف کالا باغ میر رسول بخش تالپور، پیر زادہ عبدالستار کے والد مولانا ابوا لاعلیٰ مودودی، خواجہ ناظم الدین، محترمہ فاطمہ جناح ،سردار شوکت حیات ،پیر صاحب پگارہ، خان آف قلات، میاں ممتاز دولتانہ، حاجی مولا بخش سومرو، میر احمد یار خان ،کرنل عابد حسین اور بے شمار اہم ترین اور غیر اہم سیاستدان اور رہنما شامل ہیں جن سے میر ظفر اللہ جمالی کے چچا کی سیاسی اور سماجی پوزیشن کا احساس ہوتا ہے۔ میر جعفر خان جمالی اگرچے کہ جمالی قبیلے کے سردار تھے مگر ان کے اندر عآجزی اور انکساری بہت تھی ان کے پاس جو بھی ضرورت مندآ تا خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا۔ یہ ہی صورتھال میر جعفر خان جمالی کے اہل خانہ اور بھائیوں کی تھی واقفین حال بتاتے ہیں کہ ان کے بھائی اور وزیر اعظم میر ظفراللہ خان جمالی کے والدحاجی شاہنواز خان جمالی نے بھی اپنے بھائی ہی کی طرح کی طبعیت پائی تھی ان کا وسیع حلقہ تھا اگر چے کہ وہ بھی سردار تھے مگر ان کے اندر روایتی سرداروں والی بات نہیں تھی انکساری اور خدمت گزاری کا جزبہ بے انتہا تھا یہ ہی وجہ تھی کہ جب میر شاہنواز خان جمالی کا انتقال ہوا تو جمالی قبیلے کے علاوہ تمام پاکستان سے رہنماوں اورقائدین اور عوام نے ان کی تعزیت کی۔
میر جعفر خان جمالی نے اپنی زندگی میں جو درخت لگائے تھے اور علم کی شمع اپنے گھرانے میں روشن کی تھی ان کے پھل اور اس شمع کی روشنی اب پورے پاکستان اور دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔ میر جعفر خان جمالی اب اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کو ان کے کارناموں کی وجہ سے نظر انداز اور بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔
نواب جعفر خان جمالی اپنے چھوٹے بھائی حاجی شاہنواز خان جمالی (جن کے بیٹے پاکستان کے وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی ہیں) سے بہت محبت کرتے تھے میر جعفر خان جمالی جب بھی کراچی آتے تو اپنے چھوٹے بھائی میر شاہنواز خان جمالی کے گھر 18B سندھی مسلم ہاوسنگ سوسائیٹی میں ضرور قیام کرتے تھے ۔اس وقت میر شاہنواز خان جمالی کا گھر پاکستان کے تمام اہم ترین اور بڑے سیاستدانوں کا مرکز بن جاتا تھا۔ ان سیاستدانوں میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی، سابق وزیر اعظم زوالفقار علی بھٹو نوابزادہ نصراللہ خان ،ایم ایم اصفہانی ،نواب آف کالا باغ میر رسول بخش تالپور، پیر زادہ عبدالستار کے والد مولانا ابوا لاعلیٰ مودودی، خواجہ ناظم الدین، محترمہ فاطمہ جناح ،سردار شوکت حیات ،پیر صاحب پگارہ، خان آف قلات، میاں ممتاز دولتانہ، حاجی مولا بخش سومرو، میر احمد یار خان ،کرنل عابد حسین اور بے شمار اہم ترین اور غیر اہم سیاستدان اور رہنما شامل ہیں جن سے میر ظفر اللہ جمالی کے چچا کی سیاسی اور سماجی پوزیشن کا احساس ہوتا ہے۔ میر جعفر خان جمالی اگرچے کہ جمالی قبیلے کے سردار تھے مگر ان کے اندر عآجزی اور انکساری بہت تھی ان کے پاس جو بھی ضرورت مندآ تا خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا۔ یہ ہی صورتھال میر جعفر خان جمالی کے اہل خانہ اور بھائیوں کی تھی واقفین حال بتاتے ہیں کہ ان کے بھائی اور وزیر اعظم میر ظفراللہ خان جمالی کے والدحاجی شاہنواز خان جمالی نے بھی اپنے بھائی ہی کی طرح کی طبعیت پائی تھی ان کا وسیع حلقہ تھا اگر چے کہ وہ بھی سردار تھے مگر ان کے اندر روایتی سرداروں والی بات نہیں تھی انکساری اور خدمت گزاری کا جزبہ بے انتہا تھا یہ ہی وجہ تھی کہ جب میر شاہنواز خان جمالی کا انتقال ہوا تو جمالی قبیلے کے علاوہ تمام پاکستان سے رہنماوں اورقائدین اور عوام نے ان کی تعزیت کی۔
میر جعفر خان جمالی نے اپنی زندگی میں جو درخت لگائے تھے اور علم کی شمع اپنے گھرانے میں روشن کی تھی ان کے پھل اور اس شمع کی روشنی اب پورے پاکستان اور دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔ میر جعفر خان جمالی اب اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کو ان کے کارناموں کی وجہ سے نظر انداز اور بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔
جب ایوب خان کی حکومت قائم ہوئی تو نواب جعفر خان جمالی اس وقت بھی محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ تھے اور انکی حمایت کرتے رہے اگرچے کہ اس حمایت کو ترک کرنے کے لئے ان کو بہت لالچ بھی دئے گئے مگر انہوں نے ہر طرح کی قربانی دے کر اپنے وعدے کو پورا کیا اگر چے کہ اس کا نقصان بھی ان کو اٹھانا پڑا مگر وہ اپنے وعدے پر قائم رہے