جمالی قبیلہ اور تحریک پاکستان

Jamali Tribe جمالی قبیلہ



جمالی قبیلےکا شمارپاکستان کے ان قبائیل میں کیا جاتا ہے جن کا تعلق تحریک پاکستان سے ہے ۔ پاکستان کے پہلے بلوچ وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی کے چچا میر جعفر خان جمالی نے جو کے قائد اعظم کے اہم ترین ساتھی تھے تحریک پاکستان میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا
جمالی قبیلہ معاضی حال اور تاریخ
جمالی قبیلہ پاکستان کے بڑے بلوچ قبائل میں سے ایک ہے
( نوٹ ان مختصر صفحات میں اگرچے کے اس قدر بڑے قبیلے کی تاریخ کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا ہے۔ جمالی قبیلے کی تاریخ کے بارے میں آئندہ انشاللہ مفصل طور پر ایک کتاب لکھی جائےگی
جمالی قبیلے کو بلوچوں کی رند شاخ کا حصہ بتایا جاتا ہے انگریزوں کے دور میں شایع شدہ ایک گزیٹر میں جمالی قبیلے کے سردار کا مرکز بکھڑو گاوں بتایا گیا تھا اس گزیٹر کے مطابق جمالی قبیلہ کا بڑا حصہ نواب شاہ سانگھڑ اور حیدراباد میں اور دوسرا بڑا حصہ اس وقت کے کراچی ضلع کے دادو کے علاقے میں مقیم تھا (یہ بات واضح رہے کہ اس وقت دادو کراچی ضلع کا حصہ
تھا ) قیام پاکستان کے بعد جمالی قبیلے کے افراد ملک بھر میں پھیل گئے۔ اگر چے کہ آج بھی ان کا مرکز بلوچستان میں روجھان جمالی ا ورہے مگر جمالی قبیلے کے افراد تمام پاکستان میں قیام پذیر ہیں میر جعفر خان جمالی اور ان کے ہم عصروں کی تحریک کے نتیجے میں جمالی قبیلے میں واضح طور پر بیداری کے جذبات پیدا ہوئے اگر چے کہ پیر آف پگارا کے والد پیر صبغت اللہ راشدی شہید اور ان کے اکابروں کی کوششوں کے نتیجے میں جمالی قبیلے میں اسلام سے محبت اور قربت پیدا ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں اس خطے میں چلنے والی ہر اسلامی تحریک اور آزادی کی مختلف تحریکوں مثلاًسید احمد شہید کی تحریک خلافت ،مولانا عبید اللہ سندھی کی ریشمی رومال تحریک میں جمالی قبیلے نے اہم ترین کردار ادا کیا ۔مگر گزشتہ صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں میر جعفر خان جمالی نے جمالی قبیلے میں تعلیم سے محبت اور اسلام کے لئے خدمت کے جذبات پیدا کئے ،جس کے نتیجے میں جمالی قبیلہ تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم کی فوج کا ہراول دستہ بن کر آزادی کی فوج بن کر اپنا کردار ادا کرتا رہا۔
1960 میں نواب جعفر خان جمالی نے جمالی قبیلے کا سروے کروایا تھا اس وقت سندھ کے اندر جمالیوں کی تعداد پانچ لاکھ بتائی گئی تھی جو جیکب آباد، شکارپور، سکھر، خیرپور نواب شاہ، سانگھڑ ،لاڑکانہ، دادو، ٹھٹہ، حیدرآباد اور بدین ضلع میں قیام پذیر تھے ایک سروے کے مطابق جمالی قبیلے کے افراد تمام برصغیر میں پھیل گئے تھے ان کا ایک بڑا حصہ دہلی کے ارد گرد بھی آباد ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ لوگ اردو بولنے لگے تھے ان کی شناخت اگر چے کہ جمالی تھی مگر وہ لوگ اردو بولنے والے جمالی کہلاتے تھے ۔قیام پاکستان کے بعد ان کا اکثر حصہ واپس پاکستان اور بلوچستان آیا تو ان کو جمالی قبیلے کے حصے کے طور پر واپس اپنایا گیا ۔
جمالی قبیلے کے سیاستدان
سندھ سے حاجی محمد بخش جمالی قومی اسمبلی کے ممبر بنتے رہے ہیں
جب کہ سندھ کی صوبائی اسمبلی میں حاجی کامل خان جمالی، میر غلام محمد خان شاھلیانی، رحیم بخش جمالی جمالی قبیلے کی نمائندگی کرتے رہے ہیں ۔
جبکہ صوبہ بلوچستان سے میر مراد خان جمالی نے مغربی پاکستان کی اسمبلی میں جمالیوں کی نمائندگی کی تھی۔ میر تاج محمد جمالی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں جبکہ سینٹر میر عبدالرحمان جمالی میر ظفر اللہ جمالی کے چھوٹے بھائی تھے ان کے علاوہ میر عبدالنبی جمالی، میر کیپٹن جان محمد جمالی ، میر محمد خان جمالی اور میر فائق جمالی بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں جمالیوں کی نمائندگی کرتے رہے ہیں ۔ ۔۔۔ قیام پاکستان کے بعد اور تعلیم
قیام پاکستان کے بعد جمالی قبیلے کے اکابرین اور رہنماوں نے اپنے قبیلے کے نوجوانوں کے اندر تعلیم حاصل کرنے کی لگن پیدا کی اس مقصد کی خاطر انہوں نے باقائدہ سے جمالی قبیلے کے اندر ایک طرح کی تحریک پیدا کی ۔اس کے نتیجے میں جمالی قبیلے کے نوجوان اپنے اپنے وسائل کے مطابق ہر جگہ تعلیم حاصل کرنے میں مگن ہوگئے یہ ہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اگرچے کہ اس وقت عام بلوچ قبیلوں کے اندر جدید تعلیم کے بارے میں کسی طرح کا کوئی شغف نہ تھا۔ اسی لئے میر ظفر اللہ جمالی نے اپنی تعلیم لاہور میں حاصل کی مگر ان کے والداور چچا کراچی اور کوئٹہ میں مقیم تھے مگر اس تعلیم کی خاطر وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی نے اپنی تعلیم کا ابتدائی وقت کراچی ہی میں گزارا، اور یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے بزرگوں نے اپنے بچوں کو اپنے آپ سے دور بھی رکھا ۔